کیا آپ کو لگتا ہے کہ دیویندر فڑنویس مہاراشٹر کے اگلے وزیر اعلیٰ ہوں گے؟
اسکولوں کے بچے بریگزٹ کے لیے اپنے بڑوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ بریگزٹ میں تمھارے والدین کا قصور ہے۔
برطانیہ میں پچھلے چند سالوں کے دوران ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو یورپی یونین کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں اور ریفرنڈم کے نتیجے سے دنیا بھر میں یہ پیغام گیا ہے کہ برطانوی عوام کی یورپ کے ساتھ یک جہتی میں دلچسپی باقی نہیں رہی ہے لیکن کیا یہی سچائی ہے جس کی وجہ سے برطانیہ یورپ سے الگ ہو گیا ہے۔
یورپی رکنیت پر ریفرنڈم کے سوال پر عوام کو صرف ہاں یا نا میں جواب دینا تھا یعنی وہ یورپی یونین کی رکنیت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں یا پھر اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات
یہ ہے کہ جمعرات کو پولنگ اسٹیشن کے باہر ہماری کئی ایسے تارکین وطن خاندانوں سے ملاقات ہوئی تھی جو ووٹ ڈالنے سے پہلے تذبذب کا شکار تھے اور عین آخری لمحات میں انھوں نے اندازے سے کسی ایک باکس کو منتخب کیا تھا۔
لیکن ریفرنڈم کے بعد یورپی یونین سے نکلنے کی حمایت کرنے والے لوگوں کو نظریں چراتے ہوئے دیکھا گیا ہے حتیٰ کہ اسکولوں کے بچے بریگزٹ کے لیے اپنے بڑوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ بریگزٹ میں تمھارے والدین کا قصور ہے۔
یہ معاملہ کتنا پیچیدہ تھا ایک عام شہری کے لیے اس کا صحیح اندازا لگانا واقعی مشکل تھا یہ جواب ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم محمد ترکی مترکی کا تھا ان کا تعلق عراق سے ہے۔ ترکی نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے لوگوں نے فیصلہ ایک قوم بن کر کیا ہے کیونکہ انھیں ایسا لگتا ہےکہ ایک فلاحی ریاست اب تارکین وطن کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہے۔
انھیں یہ فیصلہ کس طرح متاثر کر سکتا ہے اس کے جواب میں ترکی نے بتایا کہ میرا مستقبل اب برطانیہ تک محدود ہے ایک برطانوی شہری کی حیثیت سے مجھے تحقیق یا روزگار کےحوالے سے یورپ میں کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں ہو سکے گی۔